24-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منٹو کے افسانے قسط 11
منٹو کے افسانے قسط 11
(وہی کمرہ جو پہلے اور دوسرے منظر میں ہے۔ ۔ ۔ رات کا وقت، فضا بالکل خاموش ہے۔ بڑے بے ڈھنگے طریق پر مسہری پر سعیدہ تین چار گدگدے تکیوں میں اپنا نیم سنہرے بالوں والا سر دبائے کوئی کتاب پڑھنے میں مشغول ہے۔ ۔ ۔ نظریں کتاب کے حروف کے بجائے اس کے اپنے دل کی جانب معلوم ہوتی ہیں۔ سینے کے مقام پر کمبل کی سلوٹیں چغلیاں کھا رہی ہیں اور ننھے سے تالاب میں جزر کا نقشہ پیدا ہو رہا ہے۔ ۔ ۔ بائیں طرف لوہے کی ہسپتالوں جیسی چارپائی بچھی ہے۔ ۔ ۔ اس کے ساتھ اپاہجوں والی کرسی میں امجد بیٹھا ہے۔ اس کے ہاتھ میں کتاب ہے۔ وہ اسے یوں پکڑے ہے جیسے کوئی شیشے کی چیز ہے۔ اس کی نظریں پریشان ہیں۔ کتاب کے حروف سے اٹھ کر کبھی وہ سعیدہ کے ہاتھوں پر جا بیٹھتی ہیں۔ کبھی اس کے سنہرے بالوں والے سر پر جو تکیوں میں دھنسا ہے۔ ۔ ۔ آخر اس سے نہیں رہا جاتا۔ ۔ ۔ کتاب بند کر کے اپنی گود میں رکھتا ہے اور بڑی آہستگی کے ساتھ سعیدہ سے مخاطب ہوتا ہے۔ ) امجد :سعیدہ! سعیدہ : (چونک کر) جی؟ امجد :میرا خیال ہے، اب سو جاؤ۔ سعیدہ : (کروٹ بدل کر امجد کو دیکھتے ہوئے)آپ سونا چاہتے ہیں تومیں غلام محمد اور کریم کو بلاؤں کہ وہ آپ کو لٹا دیں۔ امجد : (کھوکھلی آواز میں) لٹا دیں۔ ۔ ۔ نہیں سعیدہ۔ ۔ ۔ میں لیٹ لیٹ کے تھک گیا ہوں۔ ۔ ۔ آج یہیں کرسی پرسو جاؤں گا۔ ۔ ۔ تمہیں تکلیف نہ ہو تو اٹھ کے یہ بتی بجھا دو اور سبز بتی روشن کر دو۔ سعیدہ : (اٹھتی ہے)آپ بار بار میری تکلیف کا ذکر کیوں کرتے ہیں۔ امجد :میں خود تکلیف میں ہوں۔ سعیدہ : (چڑ کر) مجھے اس کا احساس ہے امجد صاحب۔ ۔ ۔ مگر بتائیے میں آپ کے لئے کیا کر سکتی ہوں۔ ۔ ۔ مجھ سے جوہو سکتا ہے، میں کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ۔ ۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ آپ کو ہر وقت میری تکلیف کی پڑی رہتی ہے۔ ۔ ۔ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ امجد :سعیدہ، تم بہت اچھی ہو۔ (سعیدہ بتی بند کرتی ہے۔ ۔ ۔ چند لمحات کے لئے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ ۔ ۔ پھر کمرے کی ہر چیز ہلکی ہلکی سبز روشنی میں نہانا شروع کر دیتی ہے۔ ) سعیدہ :کاش میں اچھی ہوتی۔ ۔ ۔ اچھی ہو سکتی۔ (صوفے پر بیٹھ جاتی ہے۔ ۔ ۔ سینے سے اس کا اضطراب ظاہر ہے۔ ) امجد :اس سے زیادہ تم اور کیا اچھی ہو سکتی ہو، سعیدہ۔ سعیدہ : (تیزی سے) جی نہیں۔ ۔ ۔ آپ نہیں جانتے۔ امجد : (بہت ہی ملائم آواز میں) اگر کسی وجہ سے میں نے تمہیں ناراض کر دیا ہے تو مجھے معاف کر دو۔ سعیدہ : (امجد کی طرف دیکھتی ہے۔ ۔ ۔ اٹھتی ہے اور مسکراتی ہوئی اپنی لمبی لمبی انگلیوں سے امجد کے بالوں میں کنگھی کرتی ہے) سچ تو یہ ہے امجد صاحب کہ میں آپ کے لائق نہیں ہوں۔ امجد : (سعیدہ کا ہاتھ پکڑ کر)۔ ۔ ۔ یہ تمہارے دل کی اچھائی ہے اگر تم ایسا سمجھتی ہو، ورنہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ سعیدہ : (بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے) سو جائیے۔ ۔ ۔ کئی راتوں سے آپ جاگ رہے ہیں۔ ۔ ۔ بلکہ جب سے یہاں آئے ہیں، ایک لحظے کے لئے بھی آپ کی آنکھ نہیں لگی۔ امجد :مجھے نیند نہیں آئی سعیدہ۔ سعیدہ :کیوں ؟ امجد :معلوم نہیں کیوں۔ ۔ ۔ بس ایسا لگتا ہے کہ نیند کبھی آئی تھی نہ آئے گی۔ ۔ ۔ میں تو وہ راتیں بھی یاد کرنا بھول گیا ہوں جب سویا کرتا تھا۔ سعیدہ :کاش، میں آپ کو اپنی نیند دے سکتی۔ امجد :نہیں سعیدہ۔ ۔ ۔ میں اتنی عزیز چیز تم سے نہیں چھیننا چاہتا۔ ۔ ۔ یہ تمہاری آنکھوں ہی کے لئے سلامت رہے جو نیند میں اور بھی زیادہ خوبصورت ہو جاتی ہیں۔ ۔ ۔ جاؤ، اب سو جاؤ۔ سعیدہ :میں کم بخت تو سو ہی جاؤں گی۔ امجد :ایسا نہ کہو۔ ۔ ۔ خدا تمہارے بخت بلند کرے۔ ۔ ۔ جاؤ سو جاؤ۔ سعیدہ : (چڑ کر)آپ کیوں میرے ساتھ اتنی نرمی سے پیش آتے ہیں۔ ۔ ۔ امجد صاحب، مجھے اس سے بڑی وحشت ہوتی ہے۔ ۔ ۔ خدا کی قسم آپ کی یہ نرمی، یہ حلیمی، یہ انکسار، ایک دن مجھے پاگل بنا دے گا۔ (جھنجھلا کر تیزی سے مسہری کی طرف بڑھتی ہے اور خود کو بستر میں گرا دیتی ہے۔ ) امجد :مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرے منہ سے جو باتیں نکلتی ہیں، وہ بھی ٹوٹی پھوٹی ہوتی ہیں۔ (سعیدہ خاموش رہتی ہے۔ کروٹ بدل کروہ اپنا منہ دوسری طرف کر لیتی ہے۔ ۔ ۔ امجد اپنی گود میں سے کتاب اٹھاتا ہے اور اس کی ورق گردانی شروع کر دیتا ہے۔ ۔ ۔ سکوت کا عالم ہے۔ ہلکی ہلکی سبز روشنی میں یہ سکوت اور بھی زیادہ نحیف ہو گیا ہے۔ ۔ ۔ کافی لمبا عرصہ خاموشی میں گزرتا ہے، بڑی بے زار سی خاموشی میں۔ ۔ ۔ امجد کے چہرے پر روشنی قبروں کے سبز غلاف کی طرح چڑھی ہے۔ ۔ ۔ اس کی نگاہیں کتاب سے ہٹ کر بار بار سعیدہ کی جانب اٹھتی ہیں، اور شرمسار ہو کر دبے پاؤں لوٹ آتی ہیں۔ ۔ ۔ تھوڑی دیر کے بعد امجد بہت زیادہ مضطرب ہو جاتا ہے۔ ) امجد :سعیدہ! سعیدہ :جی! امجد :میں۔ ۔ ۔ میں تم سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ سعیدہ : (کروٹ نہ بدلتے ہوئے)کیا؟ امجد :کیا۔ ۔ ۔ کیا آج ہماری پہلی رات ہو سکتی ہے۔ ۔ ۔ سعیدہ : (بستر میں لرز سی جاتی ہے) امجد :وہ رات۔ ۔ ۔ جو ابھی تک نہیں آئی۔ (سعیدہ خاموش رہتی ہے۔ ) (وقفہ) امجد :سعیدہ۔ سعیدہ :جی! امجد :کیا تم میری یہ درخواست قبول کر سکتی ہو؟ سعیدہ : (کروٹ بدل کر امجد کو دیکھتی ہے۔ ۔ ۔ اس کی آنکھوں میں سپردگی کی زخمی خواہش تیر رہی ہے) کیسے امجد صاحب! امجد :جھوٹ موٹ۔ ۔ ۔ محض میرے بہلاوے کے لئے۔ ۔ ۔ تم یہ فرض کر لو کہ میں تمہارے پہلو میں لیٹا ہوں۔ ۔ ۔ میں یہاں فرض کر لوں گا کہ تم میرے پہلو میں لیٹی ہو۔ ۔ ۔ میں تم سے وہی باتیں شروع کروں گا جو پہلی رات کو مجھے تم سے کہنا تھیں۔ ۔ ۔ تم اسی طرح جواب دنیا، جس طرح کہ تمہیں دینا تھا۔ ۔ ۔ میرے لئے۔ ۔ ۔ کیا میرے لئے تم جھوٹ موٹ کا کھیل کھیل سکتی ہو سعیدہ۔ سعیدہ : (آنکھوں میں سپردگی کی زخمی خواہش کی بجائے رحم کے آنسو تیر رہے ہیں)میں حاضر ہوں امجد صاحب۔ امجد :شکریہ۔ (طویل وقفہ) امجد :آج ہماری پہلی رات ہے سعیدہ۔ ۔ ۔ وہ رات جس میں جوانیاں ارضی جنت کی طرف پہلا قدم اٹھاتی ہیں۔ ۔ ۔ وہ رات جس کی تمام پہنائیوں میں دوجی غوطہ لگاتے ہیں اور ایک ہو جاتے ہیں۔ ۔ ۔ شرماؤ نہیں۔ ۔ ۔ یہ رات تو وہ ہے جب تمام پوشیدہ حقیقتوں کے گھونگھٹ اٹھنے کے لئے بیتاب ہوتے ہیں۔ ہلکی سی سرگوشی، نرم سی آہ، ایک چھوٹا سا لمس، پریدہ سانس کا ننھا سا ہلکورا بھی ان گھونگھٹوں کے پٹ کھول دیتا ہے۔ ۔ ۔ اس قدر آہستہ کہ بے معلوم سرسراہٹ تک بھی نہیں ہوتی اور آدمی، دیدار۔ ۔ ۔ پورے دیدار کے تمام مراحل طے کر جاتا ہے۔ ۔ ۔ یہ وہ رات ہے جب نگاہیں ٹکرا ٹکرا کر تارے جھڑتی ہیں اور افشاں دونوں زندگیوں کے ایک ماتھے پرچنی جاتی ہے۔ ۔ ۔ یہ وہ رات ہے۔ ۔ ۔ پہلی رات، سب سے پہلی، جب آدم کی پسلیاں چیر کر حوا نکالی گئی تھی۔ ۔ ۔ یہ وہ رات ہے جس کی درازیِ عمر کے لئے، شاعر دعائیں مانگ مانگ کر ابھی تک نہیں تھکا۔ ۔ ۔ یہ وہ رات ہے جس کے حصول کے لئے جوانی کی جائے نماز بچھا کر زندگی اکثر سجدہ ریز رہی ہے۔ ۔ ۔ یہ وہ رات ہے جس میں حجاب کی تمام گرہیں فطرت کے ناخن خود کھولتے ہیں۔ ۔ ۔ یہ وہ رات ہے جب قدرت کے تمام کارخانے صرف ایک ہی پرزہ ڈھال رہے ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ وہ پرزہ جس نے کائنات کے ان تمام کارخانوں کو حرکت بخشی تھی۔ ۔ ۔ یہ وہ رات ہے جب تمام آوازیں واپس اپنے مخرجوں میں چلی جاتی ہیں کہ اس آواز کا جلوس انتہائی آرام و سکون سے گزر جائے۔ جس میں دکن کی گونج ہے۔ ۔ ۔ یہ وہ رات ہے جس کا ہر پردہ اجالے سے بنا ہے۔ ۔ ۔ یہ وہ رات ہے، ہر آنے والی رات جس کے حضور جھولی پھیلائے بھیک کی منتظر کھڑی ہے۔ ۔ ۔ یہ وہ رات ہے جب بدن کارواں رواں منہ کھول کے بولتا ہے اور کان کھول کے سنتا ہے۔ ۔ ۔ بڑے بڑے ان کہے راز۔ ۔ ۔ بڑے بڑے ان گائے راگ۔ ۔ ۔ (ایک دم چیخ کر) ڈھانپ لو۔ ۔ ۔ ڈھانپ لو۔ ۔ ۔ سعیدہ اپنا بدن ڈھانپ لو۔ ۔ ۔ یہ مجھے ڈس رہا ہے۔ ۔ ۔ اس کا ایک ایک خط تلوار کی دھار کے مانند میری لولی خواہشوں پر پھر رہا ہے۔ ۔ ۔ ڈھانپ لو۔ ۔ ۔ خدا کے لئے اپنا جسم ڈھانپ لو۔ سعیدہ : (ہلکی ہلکی سبز روشنی میں گھاس کی نرم نرم پتیوں سے بنی ہوئی لاش کے مانند لیٹی ہے۔ اس کا بدن لرز رہا ہے۔ ۔ ۔ ایک ایک انگ کانپ رہا ہے) جی؟ امجد : (بلک بلک کر رونے لگتا ہے) اپنا بدن ڈھانپ لو۔ (سعیدہ اپنا لرزتا ہوا بدن کمبل سے ڈھانپ لیتی ہے۔ امجد آنکھوں کے سامنے ہاتھ رکھے روتا رہتا ہے۔ ) ۔ ۔ ۔ پردہ۔ ۔ ۔